اردو شاعری میں کھانے پینے کا تصور
Volume 3 | Issue 3 [July 2023]

اردو شاعری میں کھانے پینے کا تصور <br>Volume 3 | Issue 3 [July 2023]

اردو شاعری میں کھانے پینے کا تصور

ڈاکٹر رخشندہ جلیل

Volume 3 | Issue 3 [July 2023]

اردو ادب میں شاید ہی کوئی ہوگا جس نے کھانے پینے پر اتنا لکھا ہو جتنا آگرہ میں رہنے والے نذیراکبرآبادی نے لکھا ہے۔ روٹی پر لکھی ہوئی ان کی طویل نظم ’روٹی نامہ‘ آج بھی پڑھی اور سراہی جاتی ہے۔ ان کی اور نظمیں جیسے ’آگرہ کی ککڑیاں‘(جہاں ککڑیوں کو لیلہ کی انگلیوں جیسا بتایا جاتا ہے)، ’تربوز‘،’خربوزے‘، ’سنترے‘، ’نارنگی‘ اور ’جلیبیاں‘ موسم کے پھلوں اور چٹخارے دار ذائقے کا بخوبی بیان کرتی ہیں۔ سنےے نظیر کس طرح قلیہ کاذکر کرتے ہیں۔جوایک قسم کا گوشت سے بنا پتلے شوربے کا سالن ہوتاہے جو اکثر پلاو¿ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ یہ بھی غور کیجےے کہ کیسے مسالے دار، چٹخارے دار بریانی کس طرح ہمارے دسترخوان پہ حاوی ہوگئی ہے اور ہم پلاو¿ کی نزاکت کو بھولتے جارہے ہیں:

نذیر یار کی ہم نے جو کل ضیافت کی

پکایا قرض مانگ کر پلاو¿ اور قلیہ

نذیر کی طرح اور شاعروں نے بھی موسم کے کھانوں کا، خاص طور پر موسم کے پھولوں کا ذکر کیا ہے۔ اور یہ صحیح بھی ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں تین بالخصوص اور ایک دوسرے سے مختلف موسم ہوتے ہیں جاڑا،گرمی اور برسات۔ الگ الگ طرح کے کھانے ان موسموں میں پکائے اور کھائے جاتے ہیں۔ ان کھانو ںکے ساتھ جڑی بہت سی کہانیاں ہیں، بہت سے لوک گیت ہیں اور نانی دادی کے وقت سے چلے آرہے رواج اور طور طریقے ہیں۔ پھلوں میں سب سے زیادہ ممتاز آم کو مانا گیاہے اور کیوں نہ ہو؟ یہ ملک کے مختلف حصوں میں اُگتا ہے اور چھوٹے بڑے سبھی اسے پیار سے پھلوں کا راجا مانتے ہیں۔ غالب کو آم بے انتہا پسند تھے۔ گرمی کے موسم میں آم کھانا اور بہت سے آم کھانا، ان کا خاص شوق تھا۔ غالب کی طرح اکبر الٰہ آبادی بھی دوست واحباب سے آم بھیجنے کی ہی فرمائش کرتے:’ اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے‘۔ شاہین اقبال اثر نے تو آم کی شان میں قصیدہ ہی لکھ ڈالا:

کچھ پھل ضرور آئیں گے روٹی کے پڑھ میں

جس دن مرا مطالبہ منظور ہو گیا

 

راحت اندوری بھی لگ بھگ اسی طرح پھل لفظ کا استعمال کرتے ہیں

پھل تو سب میرے درختوں کے پکے ہیں لیکن

اتنی کمزور ہیں شاخیں کی ہلا بھی نہ سکوں

شاید عرفان خالد کایہ شعر بخوبی بیان کرتا کیسے کھانا پینا اور اس سے جڑی ہوئے ہمارے کھانے کے طور طریقے، وقت کے ساتھ بدلے ہیں:

کاغذ کی پلیٹوں میں کھانے کا تقاضا ہے

حالات کے شانے پہ کلچر کا جنازہ ہے

مجید لاہوری کایہ شعر بھنے تیتر کاذکر کر کے ہمیں یاد دلاتاہے کیسے بہت سے کھانے ہیں جوایک زمانے میں بڑے چاو سے کھائے اور پکائے جاتے تھے مگر آج کے اس ’پالیٹکلی کریکٹ‘ دورمیں ایک بھولی بسری یاد بن کے رہ گئے ہیں اور اب ہم ان کا ذکر صرف قصّے کہانیوں میں ہی سن پائیں گے۔

مرغیاں کوفتے مچھلی بھنے تیتر انڈے

کس کے گھر جائے گا سیلابِ غذا میرے بعد

’وہ کیسے عورتیں تھیں‘ کے عنوان سے اثنا بدر کی نظم ہمیں اس وقت کی یاد دلاتی ہیں جب کھانا پکانا بڑی محنت اور مشقت کا کام تھااور کیسے گھرکی عورتیں اس کام میںپورا دن جٹی رہتی تھیں۔ شاید ان کی اسی محنت کا نتیجہ تھاکہ ان کے ہاتھ کے کھانے کاکچھ اور ہی مزہ ہوتاتھا:

جو سِل پر سرخ مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں

سحر سے شام تک مصروف لیکن مسکراتی تھیں

آج جب مٹن کے دام آسمان کو چھو رہے ہیں تو ساغر خیامی کایہ شعر دوہرانے کوجی چاہتاہے:

ایک مہینہ ہو گیا ہے بند ہے ہم پر مٹن

دعوتوں میں کھا رہے ہیں بھنڈیاں اہلِ سخن

اور

کھا کے گھوئیاں کیا دکھلائیں شاعری کا بانکپن

ہوگئے ہیں پالک کا پتہ نازکی سے گل بدن

اور دلاور فگارکی یہ دل سے نکلی ہوئی دعا بھی یاد آتی ہے اور دل میں عجیب سی ٹیس اٹھتی ہے:

یا رب میرے نصیب میں اکلِ حلال ہو

کھانے کو قورمہ ہو کھلانے کو دال ہو

بڑے (یعنی بڑا جانور) اور چھوٹے (یعنی بکری یا بھیڑ)کے گوشت کے بارے میں ہنسی مذاق اور نونک جھونک ہندستان کے ہر اس علاقے میں ہوتاہے جہاں ان کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ایک زمانہ تھاجب اشراف (شریف کی جمع یعنی اونچی ذات کے لوگ) اور ازلاف (یعنی نیچی یا پچھڑی ذات کے لوگ)کے بیچ کا فرق بہت صاف تھا۔ ظاہر ہے ان کا رہن سہن، ان کا کھان پان، ان کے طور طریقے بھی ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ کھان پان کی بات کی جائے تو اشراف صرف مٹن کھاتے تھے؛ مرغ، یا یوں  کہےے مرغی، بھی ان کے لےے شرافت کی حد سے باہر سمجھا جاتا تھا البتہ دیسی مرغی ضرور شوق سے کھا لی جاتی تھی۔ مرغ سے بہتر تیتر بٹیر سمجھے جاتے تھے۔ بڑے اور چھوٹے کے فرق میں ہنسی مذاق عام تھاجیسے کہ اکثر گاو

¿ں یا دیہات یا قصباتی شہروں میں سڑک پہ کباب بیچنے والے کبابی سائن بورڈ کہ جس پہ لکھا ہوتا: ’اللہ قسم چھوٹے کا ہے‘! یہ ایک آسان طریقہ تھااپنی بہتری اور اپنے کبابوں کے میٹ کے عمدہ ہونے کی دلیل پیش کرنا۔ لیچنگ کے اس دورمیں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ جب میںبڑا کہتی ہوں تو میری مراد بھینس کے دگوشت سے ہےگائے کے گوشت سے نہیں۔ کلکتہ اور کیرلہ کے کچھ شہروں کو چھوڑ کر اور گووا کے کچھ ریسٹورنٹ کے علاوہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے ہندوستان میں کسی بھی ریسٹورنٹ یا پبلک میں بیف کہہ کر بھینس کے علاوہ کوئی اور قسم کا گوشت سرو ہوتے دیکھا ہو۔

یہ الگ بات ہے اور اَن کہی بھی۔ کہ کچھ میٹ کے کھانے بڑے کے میٹ سے زیادہ ذائقے دار بنتے ہیں۔ اشراف گھروں کی بیویاں بھلے ہی اس بات کو عام طور سے تسلیم نہ کریں لیکن نہاری اور کچھ حد تک شامی کباب اور بریانی بھی بڑے (یعنی بھینس کے گوشت) سے ہی زیادہ مزے دار بنتے ہیں اور خاص کر ان کھانوں میں گوشت کا اصلی ذائقہ بڑے کے ساتھ ہی اُبھر کر آتا ہے۔ لیکن اب ایسا کہاں رہا! بیف بَین،لیچنگ کا خوف اپنے فرج میں رکھے میٹ کا ثبوت دینا۔ ضرورت پڑے تو ڈی این اے ٹیسٹنگ کے ذریعے ان سبھی ملی جلی وجوہات سے بھینس کے گوشت (جس سے بُف کہا جانے لگا ہے)کے دام بڑھتے جارہے ہیں۔ اب تو بُف بھی بہت مہنگا ہوگیا ہے (مرغی سے بھی زیادہ دام کا) اور اشراف کیا ازلاف کیا سبھی کی دسترس سے باہر ہے۔

                بھیس بدلنے اور ٹھگّی کی روایت ہمارے ملک میں بہت پرانی ہے۔ لیکن کیا آپ نے کھانے پینے کے معاملے میں ٹھگی سنی ہے؟ یعنی مٹن کے بھیس میں کٹہل اگر آپ کے سامنے آ جائے تو آپ کیا کریں گے؟ اور وہ بھی کٹہل کی ترکاری کی شکل میں نہیںبلکہ بریانی،کباب یا پھر اِسٹُو (انگریزوں کے زمانے کے خان سامے میم صاحب کے سکھائے ہوئے اَسٹو کو ہمیشہ اِسٹوُ ہی کہا کرتے تھے اور پرانے شہروں میں آج بھی اسے اسی طرح پکارا جاتا ہے)۔ اب کریں بھی تو کیا کریں؟ زمانہ ہی کچھ ایسا آگیا ہے۔ بھیس بدلنے کی روایت اتنی عام ہو گئی ہے۔ جو ہے وہ نہیںہے اور جو نہیں ہے وہ ہے۔یہی زمانے کا دستور ہے، یہی آج کا چلن ہے۔

                یہاںبات بے چاری فیکی فاکی لوکی کی نہیں ہورہی نہ ہی بے مزہ اربی اروی کی۔ جس کے کباب اور کوفتے عام طور سے بنائے جاتے ہیں یا پھر فِش کٹ لیٹ کی طرز کے اربی کے کٹ لیٹ۔ ہم بات کر رہے ہیں کٹہل کی جو اپنے آپ میں ایک نرالا بہروپیا ہے۔اس کی ٹکر کی سبزیوں کی دنیا میں شاید ہی کوئی دوسری سبزی ہوگی۔ یقین نہیں آتا؟ اچھا چلئے، کٹہل کے ٹکڑے لیجئے،انہیں تھوڑے سے تیل یا گھی میں تل لیجےے۔بس اتنا کہ وہ لِزلِزا نہ رہیں اور ہلکے گلابی سے رنگ کا ہو جائے۔ اب اسے چنے کے دال کے ساتھ ابال لیجےے۔ صرف اتنا پانی ڈالےے کہ دال بھی گل جائے اور کٹہل بھی اورپانی بالکل خشک ہوجائے۔ ابلتے وقت نمک،مرچ، گرم مسالے اور پیسی ہوئی دال چینی ضرور ڈال دیں۔اگر پریشر کوکر میں ابالیں تو بہتر ہے۔ ٹھنڈا ہونے پہ اسے پیس لیجئے۔ اب باریک کٹا ہرا دھنیا، ہری،مرچ، پیاز، ادرک ملاکر ان کی کباب کی شکل کی pattisبنا کے تل لیجئے۔ کٹہل کے شامی کباب تیار ہیں۔ اور اگر ان کا اور بھی مزہ اٹھانا چاہتے ہو تو بغیچے سے کچھ پتے توڑ کر ان کٹہل کے کبابوں کو یوں پروسے اور کسی انجان اردو کے شاعر کایہ شعر پڑھیں:

مے خانہ¿ ہستی کا جب دور خراب آیا

کُلہڑ میں شراب آئی پتے پہ کباب آیا

بہروپیا کٹہل اپنا اصلی جلوہ دکھاتا ہے جب آپ اسے اِسٹو کی شکل میں پکائیں۔ کافی زیادہ تعداد میں موٹی کٹی ہوئی پیاز، کھڑے مسالے، یعنی سب کچھ موٹا کٹا ہوا ادرک، لہسن، ثابت دھنیہ، ثابت بڑی الائچی، ثابت چھوٹی الائچی، کالی مرچ، ثابت لال مرچ، دوچار دال چینی کے ٹکڑے، اور نمک۔ کسی بھاری پیندے کی پتیلی میں تیل یا گھری گرم کیجئے، موٹے کٹہل کے ٹکڑوں کو کم تیل میں ہلکا سا تل لیجئے،دوچار چمچ پھٹا ہوا دہی ڈال کے ڈھک دیجےے۔ دھیمی آنچ پہ تب تک پکائےے جب تک کٹہل گل نہیں جاتااور مسالے گھیتیل نہیں چھوڑ دیتے۔ حسین میر کشمیری کے اس شعر کے ساتھ کٹہل کے اِسٹو کو نوش فرمائےے:

کیا خبر تھی انقلاب آسماں ہو جائے گا

قورمہ قلیہ نصیبِ احمقان ہو جائے گا

اربی، جسے گھوئیاں کہا جاتا ہے، مچھلی جیسا مزہ اختیار کر سکتی ہیں اگر اسے کڑوے تیل میں سرسوں کے دانے کے چھونک میں بنایا جائے۔ ساتھ ہی بہت سا پھٹاہوادہی بھی سالن میں ڈالا جائے۔ لیکن یہ چھینے چھپانے کی ادا اکثر کامیاب نہیںہوتی جیساکے شوق بہرائچی کے اس شعر سے ظاہر ہیں:

رہزن لباسِ رہبری میں نہ چھپ سکا

آلو نے لاکھ چاہا پر گھوئیاں نہ ہو سکا

آئےے اب بات کرتے ہیں ان کھانوں کی جو تیوہاروں پہ خاص طور سے پکائے اور کھائے جاتے ہیں۔ ان میں سوئیاں، کباب بریانی سب سے مشہور کومبو (Combo)ہیں۔ سال میں آنے والی دو بڑی عید کے موقعوں پر عیدالفطر اور عید الاضحیٰ پر انہیں کو ڈھونڈتے ہوئے بھاری تعداد میں مہمان آپہنچتے ہیں۔ مرتضیٰ ساحل تسلیمی عید کے دن کے ماحول کی منظرکشی اس طرح کرتے ہیں:

تھیں سوئیاں قورمہ شیر اور بریانی کباب

ہم اٹھے خوش ذائقہ کھانوں سے ہو کر فیضیاب

اب خوشی کے موقع سے افسوس کے موقعے کی طرف چلتے ہیں۔ ہمیشہ طنزیہ اور چبھتی ہوئی بات کہنے والے اکبر الٰہ آبادی موت کے بعد فاتحہ کے موقع پہ جو کھانے پکتے ہیں اور محلے پڑوس میں بانٹے جاتے ہیں۔ ان کا اس طرح بیاں کرتے ہیں:

بتاوں آپ کو مرنے کے بعد کیا ہوگا

پلاو کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا

پلاو  اور بریانی کے اپنے اپنے کیمپ (خیمے) بن گئے ہیں اور دونوں کے ممبر اپنی پسندیدہ ڈِش کی بڑائی میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن شاعر کو دونوں پسند ہیں۔ دلاور فگار دیکھئے کیسے بیاں کرتے ہیں ولیمے کی دعوت کا جہاں پلاو پروسا جائے گا۔

اُس شیخ کے ولیمے میں کھا کر چکن پلاو

کنکی کے چاولوں کا مزہ یاد آگیا

وہی دلاورفگار اس نئے زمانے کے نئے دستور کا بھی ذکر کرتے ہیں جہاں لوگ گھروں پہ دعوت کرتے ہیں،شاعروں کو مدعو کرتے ہیں اور منی مشاعرے کی محفلیں سجاتے ہیں:

قورمہ، اِسٹو، پسندہ، کوفتہ، شامی کباب

جانے کیا کیا کھا گیا یہ شاعر معدہ خراب

اردو شاعری میں دوجڑواں بھائی شراب۔کباب کا ذکر اکثر آتاہے۔ ابراہیم ذوق جیسا استاد شاعرجو بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا بھی استاد تھا، یہ اعلان کرتا ہے:

واعظ چھوڑ ذکرِ نعمتِ خلد

کہہ شراب و کباب کی باتیں

کبھی کبھی کباب تشبیہ یا استعارہ (میٹافر)بن جاتا ہے بھنے جانے کا، جیسے کے عاشق کا دل جو جلن اور حسد سے بھن جاتا ہے۔ سنےے میر تقی میر کیا فرماتے ہیں:

آتشِ غم میں دل بھنا شاید

دیر سے بو کباب کی ہے

عبدالحامد عدم بھی کباب کو تشبیہ کی طرح استعمال کرتے ہوئے یہ شعر لکھتے ہیں:

کیا ضرورت ہے بحث کرنے کی

کیوں کلیجہ کباب کرتے ہو

اور امیر مینائی بھی اسی بات کو اس طرح کہتے ہیں:

کبابِ سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بلدتے ہیں

جل اٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں

کباب کی ہی طرح ، شربت بھی اکثر ایک میٹافر کی طرح استعمال کیا جاتاہے۔ دیکھئے یہ شعر یگانہ چنگیزی کا:

شربت کا گھونٹ جان کے پیتا ہوں خون دل

غم کھاتے کھاتے منھ کا مزہ تک بگڑ گیا

                اب آتی ہے باری پان کی۔ پان ایک ثقافتی استعارہ ہے جو علاقے اور مذہب کی چار دیواری کو لانگھتاہے ا ور ملی جلی تہذیب کی طرف اشارہ کرتاہے سو خوبصورت ہے، مہذب ہے، سب کو ساتھ لے کے چلتا ہے۔ پان کو کھانے کے بعد کھایا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں ہاضم صفتیں بھی ہوتی ہیں اور اسے مکھ واس کے طورپر بھی کھایا جاتاہے جس میں منھ کا مزہ بہتر ہو۔ کبھی کبھی اس میں محرق (Stimulants)یا شہوت انگیز چیزیں (Aphrodisiacs)بھی ملا دی جاتی ہیں۔ گھرپہ آئے مہمانوں کو عزت سے پیش کیا جاتاہے، مالا میں پروکر گھرکے دروازے سجائے جاتے ہیں کیونکہ پان کے پتوں کو اچھا مانا جاتا ہے۔اسی وجہ سے اسے نئی بیاہی ہوئی دلہنوں کوبھی دیا جاتاہے۔ کئی جگہوں میں دلہن کے ہاتھ میں مہندی پہلے پان پہ رکھی جاتی ہے یا پھر پان کے دو پتوںکے پیچھے دلہن اپنامنھ دولہاسے چھپاتی ہے۔ اس طرح سے یہ نیازمند پتہ جو نہ ہی کھانا ہے نہ اسنیک (Snack)اپنی چھاپ ملک کے کونے کونے میں چھوڑ چکا ہے۔روزمرہ کی زندگی میں ہر جگہ پایا جانے والا پان۔ سڑک کنارے کے کھوکے پہ بکنے سے تاش کے پتوں پہ پایا جانے والا، کڑھائی کے نمونوں اور زیورات کے ڈیزائن میں چھپا ہوا۔ ہماری شاعری میں بھی پایا جاتا ہے۔ اردو کے شاعر نے تو اسے خاص توجہ دی ہے۔ یاد رہے کہ آج ہم جس شکل میں پان کو دیکھنے اور کھانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ایک موٹا پتا جس میں ڈھیروں گلقند، سپاری، میوہ، سوکھی گیری، ضرورت سے زیادہ میٹھی چاشنی اور نہ جانے کیا کیا الا بلا ٹھسے ہوتے ہیں۔ پہلے یہ ایسے نہیں بنایا جاتا تھا۔ اس کے بنانے کے طریقے میں نہایت نفاست ہوتی تھی اور بہت کم تعداد میں سپاری، کتھا، چونے کا استعمال ہوتا تھا۔ بڑے سے بڑے شاعر نے اس پہ شاعری کی ہے۔ یوں کہےے کتھے اور پان کا مل کے جو لہو کے جیسا لال رس نکلتا ہے جس سے ہونٹھ لال ہوجاتے ہیں وہ ایک شاعر کے خواب سے کم نہیں۔

مردانے میں پان بناکے بھیجنے کی خوبصورت رسم کا ذکر ظہیر دہلوی اپنے ایک شعرمیں کرتے ہیں۔ گھر کی عورتیں پان بناتی تھیں اور بڑی نفاست سے تشتری میں رکھ کے یہ پان مردانے میں بھیجے جاتے تھے۔ پان کا بھیجنا گھر آئے مہمان کو عزت بخشنا تھا،ویسے ہی جیسے پان کا نا بھیجناایک طرح عزت نہ دینایاتوہین کرنامہمان کو نیچا دکھانے کے برابر سمجھا جاتا تھا۔

پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں

یہ میرے قتل کے ساماں کہاں جاتے ہیں

عشق کا درد اور اس کی بے پناہ خوشی مصحفی غلام ہمدانی کایہ شعر بیان کرتا ہے:

گرمزہ چاہو تو کترو دل سروتے سے مرا

تم سپاری کی ڈلی رکھتے ہو ناحق پان میں

ایک انجان شاعرکایہ شعر بھی سنتے چلئے:

چھا لیا غم نے تیرے ورنہ تومیں ایسا کتھا

مشکلیں لاکھ آئیں پر میں چونہ کیا

پان کا رس جو تازہ خون کی طرح لال ہے عاشق کے دل کی طرح بھی ہیں جس میں سے تازہ خون بہتا ہے۔ جیساکہ حاتم کے اس شعر میں بتایا جاتا ہے:

تیرے ہونٹوں کے تئیں پان سے لال

دیکھ کر خونِ جگر کھاتا ہوں

آج کے دور کے شاعر گلزارنے بھی پان پہ بہت کچھ لکھا ہے: جیسے اس نظم میں:

کہ جیسے پان میں مہنگا قمام گھلتا ہیں

یہ کیسا عشق ہے اردو زبان کا

آج کے ہندوستان میں جہاں پہناوا مذہب سے جوڑا جاتا ہے تو کھان پان کیسے پیچھے چھوٹ جائیں؟ آپ کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے، دیوالی کے موقعے پر، ایک لوک سبھا ممبرنے بڑا ہنگامہ کھڑاکیاتھااور بین کی بات کی تھی کیونکہ کپڑوں کی ایک مشہور برانڈ نے ’جشن‘لفظ کا استعمال کیا تھااور ساتھ ہی اشتہارمیں ہرے کپڑے پہنے ہوئے خواتین کو دکھایا گیا تھا۔ بات اٹھی تھی ہندستان میں ‘Arahamisation’کے تشہیر کی اور وہ اشتہار بہت جلدی سے دبا دیا گیا تھا۔ وقتاً فوقتاًرنگوں کو لے کر بھی کچھ نہ کچھ ہنگامہ برپا ہوتا ہے، خاص کر ہرے رنگ کو لے کر۔ چھبیس جنوری کی جھانکیوں میں کچھ راجیوں کی جھانکیوں میں ہرا رنگ کیوں ہے؟ ہورڈنگ یا پوسٹر میں ہرا رنگ کیوں ہے؟ یہ مدے سال درسال اٹھائے جاتے ہیں۔ کیوں؟ کیوںکہ ہرا رنگ مسلمانوں سے جوڑا جاتاہے ویسے ہی جیسے گیروا رنگ ہندووں کے ساتھ۔ ان سب Stereotypesکو پھیلانے میں سوشل میڈیا کابہت بڑا ہاتھ ہے۔ جیسے کے سموسے، جلیبی، گلاب جامن، ’میم‘ ہیں لیکن کھیر پائے سم ’ہے‘۔ تو ایسے میں سوال اٹھتا کیک کیا ہے؟ وہ تو صرف اور صرف عیسائی ہی ہوسکتاہے۔ ایسی سوچ بہت آگے تک پہنچ گئی ہے۔ پالک تو یقینی طورپر میم ہی ہوسکتا ہے اور کدو’ہے‘ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور بے چارے پھلوں کا کیا؟ گلاب تو ضروری طورپر ’میم‘ ہے، کمل تو ’ہے‘ کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا، وغیرہ وغیرہ۔

شاید ساغر خیامی بہت پہلے بھانپ گئے تھے کے آنے والے اچھے دنوں میں ’نئے بھارت‘ میں کیا ہونے والا ہے جب انہوں نے لکھا تھا:

نفرتوں کی جنگ میں دیکھوتو کیا کیا ہو گیا

سبزیاں ہندو ہوئیں بکرا مسلمان ہوں گیا

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

oneating-border
Scroll to Top
  • The views expressed through this site are those of the individual authors writing in their individual capacities only and not those of the owners and/or editors of this website. All liability with respect to actions taken or not taken based on the contents of this site are hereby expressly disclaimed. The content on this posting is provided “as is”; no representations are made that the content is error-free.

    The visitor/reader/contributor of this website acknowledges and agrees that when he/she reads or posts content on this website or views content provided by others, they are doing so at their own discretion and risk, including any reliance on the accuracy or completeness of that content. The visitor/contributor further acknowledges and agrees that the views expressed by them in their content do not necessarily reflect the views of oneating.in, and we do not support or endorse any user content. The visitor/contributor acknowledges that oneating.in has no obligation to pre-screen, monitor, review, or edit any content posted by the visitor/contributor and other users of this Site.

    No content/artwork/image used in this site may be reproduced in any form without obtaining explicit prior permission from the owners of oneating.in.